Tuesday, June 4, 2024

میں ماں کیسے بنی میری سچی آپ بیتی

ھیلو فرینڈز میرا نام شگفتہ ھے بنا وقت زایا کیئے میں اپنی بیتی ھوئی کہانی شیر کرتی ھوں تو دوستو میں شادی شدہ ھوں میرا شوہر شوہر اکثر ملک سے باہر رہتا تھا اور میں اولاد سے بھی محروم تھی میری شادی کو 18 سال ھو گئے شوہر تو اکثر ملک سے باہر رہتا تھا جس کی وجہ سے میں بہت گرم رہتی تھی جس کی وجہ سے میں خود سے سیکس کرتی اور اپنی پھدی کا پانی نکالتی رہی میں چوتھے فلور پر رہتی تھی اور سامنے والا اپارٹمنٹ بند تھا اسی کچھ ھی مہنو بعد اس گھر میں ایک فیملی آگئی میاں بیوی اور ان کا ایک چھوٹا بیٹا جو 13 سال کا بچہ تھا اس کا نام عاصم تھا کچھ ھی دنوں میں عاصم کی مما سے میری اچھی خاصی دوستی ھو گئی جس کی وجہ سے عاصم اور ان کی ممی کا ھم دونوں کے گھروں میں آنا جانا بھی شروع ھو گیا ایک رات میں بہت زیادہ گرم تھی نگی تھی اور سیکس میں مصروف تھی اسی دوران بیل بجی میں نیٹی پہن کر پھدی میں انگلی کرتی ھوئی ڈور کھولنے گئی ڈور کھولی تو عاصم تھا اس بار عاصم کو دیکھی تو بہت گرم ھو گئی عاصم نے کہا شگفتہ آنٹی ممی پاپا کسی کی شادی میں گئے ہیں کیا میں آپ کے ساتھ وقت گزار سکتا ھوں میں نے کہا اس میں کوئی پوچھنے کی بات ھے آجاؤ عاصم کو اپنے روم میں لائی عاصم سے کہا کیا تم مجھ سے کھیل سکتے ھو کہا جی آنٹی میں نے کہا لیکن پہلے یہ وعدہ کرو کے تم کسی کو نہیں بتاؤں گے یہاں تک کے اپنی ممی پاپا کو بھی نہیں اگر نہیں بتاؤں گے تو پھر جب تم بولو گے ھم کھیلینگے نہیں کہا آنٹی میں نہیں بتاؤں گا میں نے عاصم کو چوم لیا اور کہا کے تم شرمانا نہیں کہا نہیں شرماؤں گا میں نے کہا اچھا یہ بتاو میں تم کو کیسی لگتی ھو کہا آپ بہت اچھی لگتی ھو میں نے کہا ایک منٹ تم اپنی آنکھیں بند کرو جب میں بولو تو پھر آنکھیں کھول کر بتانا کے میں کیسی لگتی ھو کہا ٹھیک ھے پھر عاصم نے آنکھیں بند کی اور میں نیٹی اتار کر کہا آنکھیں کھولو عاصم نے آنکھیں کھولیں اور مجھے نگی دیکھا میں نے کہا اب برمتاؤ کہا آنٹی آپ بہت پیاری لگ رھی ھو میں نے کہا مموں کا کہا کے ہاتھ لگاؤ ہاتھ لگایا میں نے کہا کیسے ہیں کہا بہت پیارے ہیں میں نے کہا دباؤ دبانے لگا میں بہت گرم ھو گئی عاصم سے کہا چوسو چوسنے لگا میں نے کہا تم بھی کپڑے اتار دو کہا اچھا آنٹی میں نے کہا اچھا رکو میں اتار دیتی ھوں اور میں نے عاصم کو ننگا کر دیا اور عاصم کی للی تو 5 انچ کی تھی اور 2 انچ موٹی تھی بلکہ للی نہیں لن تھا جسے میں نے سہلا کر کھڑا کیا تو میں بہت خوش ھوئی پھر عاصم کی للی کو کچھ دیر چوستی رھی پھر اپنی پھدی دیکھا کر پوچھی کیسی ھے عاصم نے کہا بہت پیاری ھے میں نے پیار کرنے کو بولی کچھ دیر عاصم نے میری پھدی کو کو چوما چوسا چاٹا میں بتاتی گئی پھر میں عاصم کے اوپر آکر اپنی پھدی میں عاصم کا لن لے کر عاصم کو چومتی ھوئی چدائی کرنے لگی پھر ڈونکی بنی پھر لیٹ گئی میں دو بار فارغ ھوئی اور بارہ بج گئے عاصم سے کہا تم آج رات میرے ساتھ رھو کہا ٹھیک ھے اور عاصم کی ممی کی کال آئی میں نے کہا عاصم تو سویا ھوا ھے عاصم کی ممی نے کہا ٹھیک ھے پھر سونے دو عاصم کو اتنا مزہ آیا کے بس ھم نے صبح تک مزے کیئے پھر ھم دونوں ننگے سو گئے صبح 10 بجے بیل بجی میں نیٹی پہن کر ڈور کھولی تو عاصم کی ممی تھی کہا عاصم اٹھا میں نے کہا ابھی سو رہا ھے کہا ھم کہیں جا رھے ہیں تو پلز اسے ناشتہ کرا دینا پھر چلی گئی میں ناشتہ بنانے لگی کچھ دیر بعد عاصم آیا اور مجھے چومتے پیچھے سے میری پھدی میں لن ڈال کر چودنے لگا میں نے کہا پہلے ناشتہ کر لو پھر بیڈ پر چلتے ہیں لیکن عاصم لگا ناشتہ بھی بن گیا اور میں فارغ بھی ھو گئی ناشتہ کر کے ھم نے پھر چدائی شروع کی ھم جیسے فارغ ھوئے تو بیل بجی میں کہا تماری ممی ھوگی کپڑے پہن کر عاصم چلا گیا 3 گھنٹے بعد پھر آیا اور مجھے گرم کیا ھم نے چدائی کی پھر جب اسکول سے واپس آتا تو ھم چدائی کرتے ایک بار مجھے ماہواری آئی تھی عاصم کو بتایا تو وہ نہیں مان رہا تھا میں گانڈ کا کہا کے اس میں کر لو تیل لگا کر اندر کرنے لگا میں درد کو برداش کر رھی تھی آخر پورا اندر چلا گیا عاصم 14 سال کا ھوا ایک بار عاصم میری پھدی میں فارغ ھو گیا جس سے میں پریگننٹ ھو گئی ایک ہفتے بعد شوہر بھی آیا شوہر کے لن میں وہ مزہ نہیں تھا جو عاصم کے لن میں تھا پھر شوہر گیا تو میں نے بتایا کے میں پریگننٹ ھو شوہر خوش ھوا عاصم تو چدائی کیئے بنا نہیں رھے پاتا تھا اور میں بھی جب عاصم 18 سال کا ھوا تو مجھے پھر پریگننٹ کیا پہلا میرا بیٹا ھوا پھر بیٹی پھر جب عاصم 20 سال کا ھوا تو اس کی شادی ھو گئی نئی پھدی ملنے کے ساتھ اپنی بیوی کے ساتھ باہر چلا گیا لیکن مجھے وہ خوشی دے گیا جو میں کبھی نہیں بھول سکی جب بھی اپنے بچوں کو دیکھتی ھوں تو مجھے عاصم بہت یاد آتا ھے اب شوہر بھی میرے ساتھ رہتا ھے تو دوستو یہ تھی میری سچھی آب بیتی مجھے اجازت اپنا خیال رکھنا بائے۔  

No comments:

Post a Comment